ارضِ دل کو آنسوؤں سے اپنی نم رکھے ہوئے
خیمہ افکار کے باہر قدم رکھے ہوئے
مدحتِ زینب میں آخر کیا لکھوں کیسے لکھوں؟
سوچتا ہوں سامنے کاغذ قلم رکھے ہوئے
بھائی کی الفت، وفاداری، حیا اور آگھی
اک بہن تھی کربلا میں سب بھم رکھے ہوئے
ابن مرجانہ کی سطوت شام میں دکھتی نہیں
بنت ِحیدر اب بھی ہے اپنا بھرم رکھے ہوئے
چل دیا سوئے جناں میں لیکے کشکولِ ثنا
رہ گئے سلطان و حاکم جامِ جم رکھے ہوئے
یوں نہیں ہوتا غمِ دنیا سے بے کل میں نجیب
دل میں ہوں میں کربلا والوں کا غم رکھے ہوئے
از قلم: نجیب الحسن زیدی
آپ کا تبصرہ